Jump to content

User:ZIAUL HAKEEM

From Wikipedia, the free encyclopedia

شاطر حکیمی


فرنگی عہد میں ہندوستان کے جس صوبہ کو صوبہ متوسط برار کہا جاتا تھا اس کا جنوبی حصہ نئی صوبائی تشکیل کے بعد ودربھ کہلایا ناگپور کے شمال مشرق میں قصبہکامٹی انگریزی حکومت کے زمانے میں فوجی چھاو رہا ہے 1857 کی یورش کے زمانے میں شاہ عبدالحکیم صوفی صافی اور عارف باللہ تھے یہ مہاراج ناگپور کے وزیر کی ایماں پر ناگپور تشریف لائے اور کامٹی میں بود باش اختیار کر لی کامٹی کے قبرستان میں ان کا مزار اج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے شاہ عبدالحکیم قدس راہ ہدایات کے لیے ہمیشہ پایہ رقاب رہتے تھے وہ صوفی صفت شاعر بھی تھے۔نظار سلوک اور ہدایت الطالبین ان کی مقبول تصانیف ہیں جو ان کے مریدین کی حرزجان رہتی ہے انہوں نے سالکین تصوف کو جو ہدایت فرمائی وہ ملفوظات عبدالحکیم قدس سرہ کی شکل میں شائع ہو چکی ہے حضرت شاطر حکیمی 1912 میں صوفی نگر کامٹی میں پیدا ہوئے زمانہ طفلی ہی میں اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو جانے کی وجہ سے تایا صوفی عبدالربحکیمی نے ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا وسط ہند کی عظیم درسگاہ جامعہ عربیہ اسلامیہ سے اپ نے مولوی کی سند حاصل کی 1931 میں انہوں نے شاعری کے لیے حافظ انور سے اصلاح لی پھر نواب غازی کے اگے زانوی ادب طے کیے شاطر حکیمی کو راہ سلوک کی نوردی اور شاعری کا ذوق ورثے میں ملا تھا باوجود صوفی صافی ہونے کے انہوں نے اپنی شاعری کے موضوعات میں عصری تقاضوں کو فوقیت دی مگر لہجہ صوفیانہ ہی رہا ان کا پہلا مجموعہ کلام موت و حیات 1944 میں پہلی بار زیور طباعت سے اراستہ ہوا تھا اس کا پیش لفظ مشہور ماہر لسانیات و دکنیات محی الدین قادری زور مرحوم نے اور تعارف الفاروق کے مدیر عبدالستار فاروقی نے تحریر کیا تھا شاطر حکیمی کا اولین مجموعہ کلام موت و حیات 1944 میں منظر عام پر ا کر قارءین ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکا تھا جس میں انہوں نے مختلف عنوانات پر ملکی و ملی شخصیات وطن دوستی انقلاب ازادی جیسے عنوانات پر پرتاثر نظمیں لکھی بعد ازمرگ ان کے صاحبزادے صوفی غلام رحمن حکیمی نے تین مجموعے کلام مزید شائع کیے جو بالترتیب پلکوں کے دیے بساط فکر اور تسکین روح ہیں اولین دو مجموعے غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے اور اخری ذکر مجموعات حمد و نعت سلام منقبت پر مشتمل ہے 2015 میں حضرت حکیمی گردے اکیڈمی کی جانب سے حضرت شاطر حکیمی فن اور شخصیت کتاب شائع کی گئی اپ کی مزید دو کتابیں جلد ہی منشہ شہود پر انے والی ہے اپ کا لقب صوفی ساتھ ہی شیخ المشائخ حضرت بابا سرور شاہ تاجی نے اپ کو افضل الذاکرین کے لقب سے بھی نوازا تھا۔اپ کے اجداد سلطان محمود غزنوی کے عہد سلطنت میں ملک عرب سے ہندوستان کے شہر لکھنؤ تشریف لائ 1976 میں ادارہ تاج کامٹی کی جانب سے مسیح غزل کے لقب سے اپ کو نوازا گیا 1980 میں بزم غالب کامٹی کی جانب سے عالی جناب شرد پوار صاحب وزیراعلی حکومت مہاراشٹر کے دست مبارک سے حکومت کی جانب سے نقدپانچ ہزار روپیہ اور شال سے نوازا گیا 1981 میں ناگپور کی گوشت کی سنستھا کی جانب سے شیوڑے ایوارڈ سے نوازا گیا اپ کے ہم عصر شعراء میں علامہ ناطق گلاوٹوی جاں نثار اختر شکیل بدا یونی کیفی عاظمی شعری بھوپالی اعجاز صدیقی مدیر شاعر ممبئی وغیرہ شامل تھے شاطر حکیمی کا حلقہ تلامذہ کافی وسیع تھا ۔ان سے استفادہ حاصل کرنے والے ایک سے ایک گوہر نایاب اج بھی ہندوستان کے کونے کونے میں اپنی اب و تاب سے ادبی فضا کو منور درخشاں کر رہے ہیں اپ کی علمی ادبی شعری صلاحیتوں کا تذکرہ سورج کو چراغ دکھانے کے مصداق ہے اپ کے شاگردوں کے اسمائے گرامی اس طرح سے ہیں فصیح اللسان مولانا محمد سعید اعجاز کامٹی مولانا عبدالرحمان راہی ریاض الرحمن شمش خلش قادری پروفیسر عبدالربعرفان ڈاکٹر ایل سی رندھیر جوگا سنگھ انور ڈاکٹر وشنوئی ڈاکٹر عبدالرحمن ڈاکٹر یونس افسر ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر ڈاکٹر شفیقہ پروین کشمیر ڈاکٹر غازی امان۔ فخر کامٹی شاطر حکیمی ایک مشہور صوفی خاندان سے تعلق رکھتے تھے انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ ریاضت عبادت کے لیے وقف کر دی تھی ۔ حضرت شاطر حکیمی کا وصال 7 دسمبر 1988 کو کامٹی میں ہوا۔ حضرت شاطر حکیمی پر بعنوان "مقا.لہ شاطر حکیمی حیات وشخصیت اور ادبی خدمات" کے لے ضیاءالحکیم کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گءی۔


حمد و ثنا

کیا بیاں ہو وصف تیرا ذوالجلال

عقل ناقص ہے تو عاجز ہے مثال


ابتدا تیری نہ کوئی انتہا

دم بخود ہے خوگر حمد و ثنا

تو وہ رفعتہےنہی جس کو زوال


ہیچ تیرے اگے سلطان و امیر

صاحب و محتاج کا تو دستگیر

جھولی بھر دیتا ہے بے عرض و سوال


برتراز وہم وہ گماں ہے تیری ذات

ماوراے دو جہاں تیری ذات

دیکھنا اسان پانا ہے محال


نوح و موسی کا تو ہی تھا پاسباں

یوسف یونس کو دی تو نے پناہ

فضل کا دریا ہے تیرا بے مثال


نار کو گلزار تو نے کر دیا

لفظ کن سے کل جہاں پیدا کیا

تیری قدرت کا ہے یہ ادنی کمال


رحمت اللعالمین تیرا رسول

مژدہ فردوس قران کا نزول

کیوں رہے شاطر تیرا وقف ملال

ا


نعت شریف


چلی ہے انکھ میری سرمہ نظر کے لیے

نبی کے روضہء انور کی خاک در کے لیے


اڑو یہاں سے تو باب حرم پر جا

دعائیں مانگ رہا ہوں میں بال و پر کے لیے


دل و نگاہ میں طیبہ نفس نفس میں حضور

یہ دولتیں تو بہت ہیں گزر بسر کے لیے


کرم کی ایک نظر مجھ پہ کیجئے سرکار

کہ اپ رہبر اعظم ہیں ہر بشر کے لیے


نبی ہماری مصیبت سے خوب واقف ہے

ہم اپنے گھر میں تڑپتے ہیں ان کے در کے لیے


مجھے بھی دیکھیے پہچانیے کب خدا شاطر

ترس رہا ہوں مدینے کی رہ گزر کے لیے


ترانہ اردو

واللہ کیا زباں ہے اردو زباں ہماری

فطرت کی ترجمہ ہے اردو زبں ہماری


ابا کی داستاں ہے اردو زباں ہماری

مظلوم کی فگاہ ہے اردو زباں ہماری


ہندو بھی بولتے ہیں مسلم بھی بولتے ہیں

دو جسم ایک جاں ہے اردو زبان ہماری


تعمیر کی ہے اس کی خود کو مٹا مٹا کر

اسلاف کا نشہ ہے اردو زباں ہماری


میٹھا ایک ایک جملہ پر غیب ہر مقالہ

الحق شکر فشاں ہے اردو زباں ہماری


الفاظ چاند تارے بن کر چمک رہے ہیں

رفعت میں اسماں ہے اردو زباں ہماری


غالب نسیم کیفی چکبست ذوق شرشار

ہر شخص کی زباں ہے اردو زباں ہماری


ایک ایک کتاب اس کا پھولا پھلا چمن ہے

گلزار بے خزاں ہے اردو زبں ہماری


منشی پریم اس پر ہوتے کیوں نہ تصدق

مانی ہوئی زباں ہے اردو زبان ہماری


ہر ادمی کے دل میں گھر کر رہی ہے شاطر

محبوب مہرباں ہے اردو زباں ہماری