User:Yaqub Hussain
ہر سال کی طرح اس برس بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے۔ یہ دن ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب پاکستان میں مزدوروں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی اب بھی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ موسم کی شدتوں میں اوقات کار اور اجرت سے بڑھ کر محنت مشقت کا بوجھ اٹھاتے مزدوروں کے لیے اس دن کو منانے کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ اس محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔ تاہم پاکستان میں ہر برس یوم مئی زور و شور سے منانے کے باوجود ملک کا یہ طبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان میں مزدوروں کے حالات اور کام کاج کی صورتحال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حکومت اس پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔ یہاں کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں کانوں میں مسلسل حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں روز ہی کوئی نا کوئی چھوٹا بڑاحادثہ پیش آرہا ہے لیکن ابھی تک کوئی ايسی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس پر کہا جا سکے کہ پاکستان کے محنت کشوں کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے کبھی سوچا بھی گیا ہے۔ ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہماری ٹریڈ یونینز بہت کمزور ہیں لیکن انہیں اب فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لیبر قوانین موجود ہیں تاہم ان پر عمل نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ 95 فیصد ملازمین جب نوکری پر آتے ہیں، تو ان کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا۔ یعنی ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ اس جگہ پر ملازم ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا ہے تو وہ یہ ثابت ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کو کم سے کم مقرر کی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں غیر ہنرمند مزدور کے لیے کم سے کم اجرت 17500 ہزار مقرر ہے جو کہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن ان کو غیر ہنرمند مزدور وں کے لیے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے جبکہ مقرر کردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کے روز بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال کے باوجود مزدور طبقے کے حالات میں بہتری کے لیے کوششيں کی جا رہی ہیں اور ان میں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں نئے قوانین شامل ہیں جبکہ کچھ معاملات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے۔ گو کہ اس وقت محنت کش طبقے کی صورتحال مایوس کن نظر آتی ہے تاہم اس میں بہتری کی امید ابھی باقی ہے۔
تحریر؛ سید یعقوب حسین رضوی انچارج میڈیا سیل پیپلز لیبر یونین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ