User:Saleem Abbasi
خلافتِ بنوعباسیہ ابوالعباس عبداللہ سفاح بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم سنہ۱۰۴ھ میں بمقام حمیمہ علاقہ بلقاء میں پیدا ہوا، وہیں پرورش پائی اپنے بھائی ابراہیم امام کا جانشین ہوا، اپنے بھائی منصور سے عمر میں
چھوٹا تھا، ابن جریر طبری کا قول ہے کہ جس روز سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ تمہاری اولاد میں خلافت آئے گی اسی وقت سے ولادِ عباس خلافت کی اُمید وار چلی آتی تھی، عبداللہ سفاح خوں ریزی، سخاوت، حاضرجوابی، تیز فہمی میں ممتاز تھا، سفاح کے عمال بھی خوں ریزی میں مشاق تھے، سفاح نے اپنے چچاداؤد کوپہلے کوفہ کی حکومت پرمامور کیا پھراس کوحجاز ویمن ویمامہ کی امارت پر مامور کیا اور کوفہ پراپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ بن محمد کومقرر کیا۔
جب سنہ۱۳۳ھ میں داؤد کا انتقال ہوگیا توسفاح نے اپنے ماموں یزید بن عبیداللہ بن عبدالمدان حارثی کوحجاز ویمامہ کی اور محمد بن یزید بن عبداللہ بن عبدالمدان کویمن کی گورنری پرمامور کیا، سنہ۱۳۲ھ میں سفاح کا چچا اسماعیل بن علی اہواز کا، دوسرا چچا عبداللہ بن علی شام کا، ابوعون عبدالملک بن یزید مصر کا، ابومسلم خراسانی، خراسان اور جبال کا گورنر اور خالد بن برمک یوان الخراج یعنی محکمہ مال گذاری کا افسر تھا، سنہ۱۳۳ھ میں ابومسلم نے اپنی طرف سے محمد بن اشعث کوفارس کا گورنر مقرر فرماکر روانہ کیا؛ اسی زمانہ میں سفاح نے اپنے چچا عیسیٰ بن علی کوفارس کی سندِگورنری دے کربھیجا، محمد بن اشعث پہلے پہنچ چکا تھا، جب عیسیٰ بن علی پہنچا تومحمد بن اشعث نے اوّل اس کوفارس کی حکومت سپرد کرنے سے انکار کیا؛ پھریہ اقرار لے کرکہ کبھی منبر پرخطبہ نہ دے گا اور جہاد کے سوا کبھی تلوار نہ اُٹھائے گا اس کوفارس کی حکومت سپرد کردی؛ مگرحقیقتاً خود ہی حاکم رہا، جب محمد بن اشعث فوت ہوگیا توسفاح نے اپنے چچا اسماعیل بن علی کوفارس کی حکومت پربھیجا اور محمد بن صول کوموصل کی حکومت پربھیجا، اہلِ موصل نے محمد بن صول کونکال دیا۔
یہ لوگ بنوعباس سے منحرف تھے، سفاح نے ناراض ہوکر اپنے بھائی یحییٰ بن محمد بن علی کوبارہ ہزار کی جمعیت سے روانہ کیا، یحییٰ بن محمد نے موصل پہنچ کرقصرِامارت میں قیام کیا اور اہلِ موصل کے بارہ سربرااوردہ آدمیوں کودھوکے سے بلاکر قتل کردیا، اہلِ موصل میں اس سے سخت اشتعال پیدا ہوا اور جنگ کرنے پرتیار ہوگئے، یحییٰ نے یہ حالت دیکھ کرمنادی کرادی کہ جوشخص جامع مسجد میں چلا آئے گا اس کوامان دی جائے گی، یہ سن کرلوگ جامع مسجد کی طرف دوڑ پڑے، جامع مسجد کے دروازوں پریحییٰ نے اپنے آدمیوں کوکھڑا کررکھا تھا جوجامع مسجد کے اندر جاتا تھا، قتل کردیا جاتا تھا، اس طرح گیارہ ہزار آدمی قتل کیے گئے؛ پھرشہر میں قتلِ عام کیا گیا، رات ہوئی تویحییٰ کے کان میں ان عورتوں کے رونے کی آواز آئی جن کے شوہر، باپ، بھائی، بیٹے ظلماً قتل کردیئے گئے تھے، صبح ہوتے ہی یحییٰ نے حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کوبھی قتل کردیا جائے، تین روز تک فوج کواہلِ شہر کا خون مباح کردیا گیا، اس حکم کے سنتے ہی شہر میں قتلِ عام بڑی شدت سے جاری ہوگیا۔
یحییٰ کے لشکر میں چار ہزار زنگی بھی تھے، زنگیوں نے عورتوں کی عصمت دری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، ہزارہا عورتوں کوپکڑ پکڑ کرلے گئے، چوتھے روز یحییٰ گھوڑے پرسوار ہوکر شہر کی سیر کے لیے نکلا، ایک عورت نے ہمت کرکے یحییٰ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور کہا کہ کیا تم بنوہاشم نہیں ہو؟ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے نہیں ہو؟ کیا تم کویہ خبر نہیں ہے کہ مؤمنات ومسلمات سے زنگیوں نے جبراً نکاح کرلیا ہے، یحییٰ نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور چلاگیا، اگلے دن زنگیوں کوتنخواہ تقسیم کرنے کے بہانے سے بلایا، جب تمام زنگی جمع ہوگئے توسب کے قتل کرنے کا حکم دے دیا، سفاح کوجب ان حالات کی اطلاع ہوئی تواس نے اسماعیل بن علی کوموصل بھیج دیا اور یحییٰ کوفارس کی حکومت پرتبدیل کردیا۔
سنہ۱۳۳ھ میں قیصرِروم نے لمطیہ اور قالیقلا مسلمانوں سے بزورِشمشیر فتح کرلیے؛ اسی سنہ میں یزید بن عبیداللہ بن عبدالمدان نے مدینہ سے ابراہیم بن حیان سلمی کویمامہ کی طرف فوج دے کرروانہ کیا، وہاں مثنیٰ بن یزید بن عمربن ہبیرہ اپنے باپ کے زمانے سے حاکم تھا اس نے ابراہیم کا مقابلہ کیا اور مارا گیا؛ اسی سال بخارا میں شریک بن شیخ مہدی نے ابومسلم کے خلاف خروج کیا اور تیس ہمار سے زیادہ لوگ جمع کرلیے ابومسلم نے زیاد بن صالح خزاعی کوشریک کے مقابلہ پرروانہ کیا، شریک نے مقابلہ کیا اور مارا گیا، ابومسلم نے ذوالحجہ سنہ۱۳۳ھ میں ابوداؤد خالد بن ابراہیم کوبلادِ ختل پرچڑھائی کرنے کے لیے روانہ کیا، حبش بن شبل بادشاہ ختل کوشکست ہوئی، وہ بھاگ کرفرغانہ ہوتا ہوا ملکِ چین چلاگیا؛ اسی زمانہ میں اخشید، فرغانہ، شاش کے بادشاہوں میں لڑائی ہوئی، بادشاہِ چین نے ان کے جھگڑے میں دخل دے کرشاش وفرغانہ کے بادشاہوں کے خلاف ایک لاکھ فوج بھیج دی، ابومسلم نے زیاد بن صالح کواس طرف روانہ کیا، چینی فوج سے زیاد بن صالح کا مقابلہ نہرطراز پرہوگیا، پچاس ہزار چینی قتل ہوئے اور بیس ہزار مسلمانوں نے گرفتار کرلیے۔
سنہ۱۳۴ھ میں بسام بن ابراہیم نے جخراسان کا ایک نامور سپہ سالارا تھا، علمِ بغاوت بلند کیا اور مدائن پرقابض ہوگیا، سفاح نے خازم بن خزیمہ کوبسام کے مقابلہ پرروانہ کیا، خازم نے بسام کوشکستِ فاش دی اور میدانِ جنگ سے بھگادیا، اس کے بعد سفاح نے خازم کوعمان کی طرف خارجیوں سے لڑنے کے لیے روانہ کیا وہاں اس نے خارجیوں کوشکست دے کران کے سردار کو قتل کردیا؛ اسی سال ابوداؤد خالد بن ابراہیم نے اہلِ کش پرفوج کشی کی اور کش کے بادشاہ کوجوذزی تھا قتل کرڈالا اور اس کے سرکوابومسلم کے پاس سمرقند میں بھیجدیا اور مقتول بادشاہ کے بھائی طازان کوتختِ نشین کرکے بلخ لوٹ آیا، ابومسلم نے اسی زمانہ میں اہل صعد اور اہلِ بخارا کا قتلِ عام کیا اور بخارا وسمرقند کا حاکم زیاد بن صالح کوبناکراور شہر سمرقند کی شہر پناہ بنانے کا حکم دے کرمروکوواپس آیا۔
ان واقعات کے بعد سفاح کے پاس خبر پہنچی کہ منصور بن جمہور نے سندھ میں بغاوت وعہدشکنی اختیار کی ہے (یہ منصور بن جمہور وہی ہے جودومہینے یزید الناقص کے عہد میں گورنرعراق وخراسان بھی رہ چکا تھا اور عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ جعفر کے ساتھیوں میں تھا، جب عبداللہ بن معاویہ کواصطخر کے قریب داؤد بن یزید بن عمر بن ہبیرہ اور معن بن زائدہ کے مقابلہ میں شکست فاش حاصل ہوئی تومنصور بن جمہور سندھ کی طرف بھاگ کرچلا آیا تھا اور عبداللہ بن معاویہ ہرات پہنچ کرمالک بن ہیثم خزاعی والیٔ ہرات کے ہاتھ سے ابومسلم کے حکم کے موافق قتل ہوئے تھے) سفاح نے اپنے افسرپولیس موسیٰ بن کعب کوسندھ کی طرف روانہ کیا اور اس کی جگہ مسیب بن زہیر کومقرر کیا، موسیٰ اور منصور سے سرحدِہند پرمقابلہ ہوا، منصور کے ہمارا باہ ہزار فوج تھی؛ مگرموسیٰ سے شکست کھاکربھاگا اور ریگستان میں شدتِ تشنگی سے مرگیا، منصور کے گورنر نے جوسندھ میں تھا یہ سن کرمعہ اہل وعیال واموال بلادِ خرز کی طرف کوچ کیا؛ اسی سال یعنی ذوالحجہ سنہ۱۳۴ھ میں سفاح مقام انبار میں آیا اور اسی مقام کودارالخلافہ بنایا۔
سنہ۱۳۵ھ میں زیاد بن صالح نے جوابومسلم کی طرف سے سمرقند وبخارا کا عامل تھا، بغاوت اختیار کی ابومسلم یہ سن کرمرو سے روانہ ہوا اور ابوداؤد خالد بن ابراہیم نے زیاد کی بغاوت کا حال سن کرنصربن راشد کوترمذ کی طرف بھیج دیا کہ ترمذ کوزیاد کی دست برد سے بچائے، نصر بن راشد ترمذ پہنچا ہی تھا کہ چند لوگوں نے طالقان سے نکل کر اس کومارڈالا ابوداؤد نے یہ سن کرعیسیٰ بن ہامان کوقاتلین نصر کے تعاقب پرمامور کیا، عیسیٰ نے قاتلینِ نصر کوقتل کیا؛ اسی اثناء میں ابومسلم مقام آمد میں پہنچ گیا اس کے ساتھ سباع بن نعمان ازدی بھی تھا، سفاح نے زیاد بن صالح اور سباع بن نعمان ازدی کو یہ سمجھا کرابومسلم کے پاس روانہ کیا تھا کہ اگرموقع ملا توابومسلم کوقتل کردینا۔
مقامِ آمد میں پہنچ کرابومسلم کوکسی ذریعہ سے یہ خبر معلوم ہوئی اس نے فوراً سباع کوآمد میں قید کردیا اور وہاں کے عامل کویہ حکم دے گیا کےہ سباع کوقتل کردینا، آمد سے ابومسلم بخارا کی طرف روانہ ہوا، راستے میں اس کوزیاد بن صالح کے چند سپہ سالارملے جواس سے منحرف ہوکر ابومسلم کی طرف آرہے تھے، زیاد ابومسلم کے بخارا پہنچنے پرایک دہقان کے گھر میں جاچھپا، دہقان نے اس کوقتل کرڈالا اور ابومسلم کی خدمت میں لاکر پیش کردیا، ابومسلم نے قتل زیاد کی خبر ابوداؤد کولکھ بھیجی، ابوداؤد مہم طالقان میں مصروف تھا، فارغ ہوکرکش واپس آیا اور عیسیٰ بن ہامان کو بسام کی طرف روانہ کیا؛ مگراس کوکچھ کامیابی حاصل نہ ہوئی؛ اسی زمانہ میں عیسی بن ہامان نے چند خطوط ابومسلم کے ہمراہیوں کے پاس بھیجے تھے ان خطوط میں ابوداؤد کی برائیاں لکھی تھیں، ابومسلم نے ان خطوط کولے کرابوداؤد کے پاس بھیج دیا، ابوداؤد نے عیسیٰ کوپٹواکرقید کردیا، چند روز کے بعد جب اس کورہا کیا تولشکری اس پرٹوٹ پڑے اور عیسیٰ کومارڈالا، اس مہم سے فارغ ہوکر ابومسلم مرو کی طرف واپس آگیا۔
سنہ۱۳۶ھ میں عبداللہ بن علی سفاح کی خدمت میں آیا، سفاح نے اس کولشکرِ شام اور لشکرِ عراق کے ساتھ رومیوں کی طرف روانہ کیا، سفاح کا بھائی ابوجعفر منصور جزیرہ کا عامل تھا، اس نے اس سال سفاح کے اشارے سے حج کا ارادہ کیا اور سفاح سے اجازت طلب کی، سفاح نے لکھا کہ تم میرے پاس چلے آؤ میں تم کوامیرِحج بناکر بھیجوں گا؛ چنانچہ منصور انبار چلاآیا اور حران کی حکومت پرمقاتل بن حکیم مامور کیا گیا، بات یہ تھی کہ اسی سال ابومسلم نے بھی سفاح سے حج کی اجازت طلب کی تھی؛ لہٰذا سفاح نے خود ہی اپنے بھائی منصور کومخفی طور پراطلاع دی کہ تم فوراً حج کے لیے تیار ہوجاؤ اور درخواست بھیج دو، اس موقع پریہ ظاہر کردینا ضروری ہے کہ ابومسلم خراسانی نے دعوتِ عباسیہ کوکامیاب بنانے میں سب سے بڑا کام کیا تھا، جیسا کہ واقعاتِ گذشتہ سے ظاہر ہے، اب سفاح کے خلیفہ ہوجانے اور حومتِ عباسیہ کے استقلال کے بعد وہ خراسان کا گورنر بنادیا گیا اور سفاح نے اس کے نام باقاعدہ سندِ حکومت بھی بھیج دی؛ مگرابومسلم نے خود حاضرِ دربارِ خلافت ہوکر بیعت نہیں کی تھی، وہ شروع میں پہلی مرتبہ جب امام ابراہیم کی طرف سے خراسان بھیجا گیا تھا؛ اسی وقت سے اب تک مسلسل خراسان میں موجود تھا، اسی نے خراسان پرقبضہ کیا؛ اسی نے اپنی حکومت قائم کی اور وہی ہرطرح خراسان پرمستولی تھا، جب ایک ایک کرکے تمام دشمنوں کا کام تمام ہوگیا توعبداللہ سفاح کوخیال آیا کہ ابومسلم کی منشاء کے خلاف نہ اس کوکسی صوبہ کی حکومت پرتبدیل کرسکتا تھا نہ اس کے زورِ قوت کوگھٹا سکتا تھا۔
ابومسلم اپنے آپ کوخلافتِ عباسیہ کا بانی سمجھتا اور خلیفہ سفاح کا سرپرست اپنے آپ کوجانتا تھا، وہ خلیفہ سفاح کومشورے دیتا اور سفاح اس کے مشوروں پراکثر عمل کرتا؛ لیکن خراسان کے معاملات میں وہ سفاح سے اجازت یامشورہ لینا ضروری نہ سمجھتا تھا، عثمان بن کثیر عباسیوں کے نقباء میں ایک نامور اور سب سے پرانا نقیب تھااس کوابومسلم نے ذاتی کاوش کی بناپرقتل کردیا اور سفاح اس کے متعلق ابومسلم سے کوئی جواب طلب نہ کرسکا اور سفاح، اس کے چچا، اس کے بھائی بھی اپنے حوصلے بلند رکھنے اور ابومسلم کی اس خودسرانہ حکمرانی کوبرداشت نہ کرسکتے تھے، سفاح نے جب اپنے بھائی ابوجعفر منصور کوخراسان کی طرف بیعت لینے کے لیے بھیجا اور اسی کے ہاتھ ابومسلم کے نام سندگورنری بھیجی توابومسلم کا برتاؤ ابوجعفر منصور کے ساتھ مؤدبانہ، نہ تھا؛ بلکہ اس کی ہرایک حرکت سے خودسری اور مطلق العنانی ابوجعفر نے محسوس کی تھی؛ چنانچہ ابومسلم اور ابوجعفر کے درمیان ایک کشیدگی دلوں میں پیداہوچکی تھی، ابوجعفر نے جب یہ تمام حالات سفاح کوسنائے تووہ اور بھی زیادہ اس فکر میں پڑگیا کہ ابومسلم کے اقتدار واثراور اختیار وتسلط کوکس طرح کم کرے؛ چنانچہ اس نے یہی مناسب سمجھا کہ ابوملسم کا کام تمام کردیا جائے؛ اسی لیے زیاد بن صالح اور سباع بن نعمان ازدی سے سفاح نے اس کام کی سفارش کی؛ جیسا کہ اوپر ذکر ااچکا ہے، غرض حالت یہ تھی کہ سفاح اور ابومسلم کے دل صاف نہ رہے تھے۔
ابومسلم چونکہ اقتدار پسند اور اوالوالعزم شخص تھا اس کوجب خلیفہ سفاح کی طرف سے شبہ پیدا ہوا تواس نے صرف خراسان ہی پراپنے اثرواقتدار کوکافی نہ سمجھ کرحجاز وعراق میں بھی اپنا اثرقائم کرنے کی کوشش ضروری سمجھی؛ تاکہ وہ اگرضرورت پڑے توعباسیوں کوکچل سکے، ایک ایسے شخص کا جودعوتِ عباسیہ کوکامیاب بناچکا تھا، حجاز وعراق اور تمام اسلامی ممالک میں اپنی قبولیت بڑھانے کے کام پرمخفی طریقہ سے آمادہ ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی؛ لیکن اس کویہ بات یاد نہ رہی کہ اس کے مقابلہ پروہ خاندان ہے جس میں محمد بن علی اور ابراہیم بن محمد جیسے شخص یعنی بانیٔ تحریک عباسیہ پیدا ہوسکتے ہیں اور خلافتِ بنواُمیہ کی بربادی سے فارغ ہوکر ابھی اس پرقابض ہوئے ہیں، ابومسلم نے اگرچہ سب سے زیادہ کام کیا تھا؛ لیکن وہ اس کام میں عباسیوں کا شاگرد اور عباسیوں ہی کا تربیت کردہ تھا۔
غرض ابومسلم نے سفاح سے حج کی اجازت طلب کی، سفاح نے اس کواجازت دی اور لکھا کہ پانچ سو آدمیوں سے زیادہ اپنے ہمراہ نہ لاؤ، ابومسلم نے لکھا کہ لوگوں کومجھ سے عداوت ہے، اتنے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ سفر کرنے میں مجھ کواپنی جان کا خطرہ ہے، سفاح نے لکھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار آدمی کافی ہیں، زیادہ آدمیوں کا ساتھ ہونا اس لیے باعثِ تکلیف ہوگا کہ سفرِ مکہ میں سامانِ رسد کی فراہمی دشوار ہے، ابومسلم آٹھ ہزار فوج کے ساتھ مروسے روانہ ہوا اور جب خراسان کی حد پرپہنچا توسات ہزار فوج کوسرحدی مقامات پرچھوڑ کرایک ہزار آدمیوں کے ساتھ دارالخلافہ انبار کی طرف بڑھا، سفاح نے اپنے بڑے بڑے نامی سپہ سالاروں کواستقبال کے لیے بھیجا اور جب دربار میں حاضر ہوا تواس کی بے حدتعظیم وتکریم کی اور کہا کہ اگراس سال میرے بھائی ابوجعفر منصور کا ارادہ حج نہ ہوتا تومیں تم ہی کوامیرِحج مقرر کرتا، اس طرح ابومسلم کی امیرِحج ہونے کی خواہش پوری ہونے سے رہ گئی؛ غرض دارالخلافہ انبار سے ابوجعفر منصور اور ابومسلم دونوں ساتھ ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے، ابومسلم خراسان سے ایک بڑا خزانہ ہمراہ لے کرآیا تھا، منصور کی معیت اس کوپسند نہ تھی؛ کیونکہ وہ آزادانہ بہت سے کام جوکرنا چاہتا تھا نہیں کرسکا؛ تاہم اس نے مکہ کے راستے میں ہرمنزل پرکنوئیں کھدوانے، سرائیں بنوانے اور مسافروں کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کے کام شروع کرادیئے، کپڑے تقسیم کیے، لنگرخانے جاری کئے، لوگوں کوبے دریغ انعامات دیئے اور اپنی سخاوت وبخشش کے ایسے نمونے دکھائے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوگئے، مکہ معظمہ میں بھی اس نے یہی کام وسیع پیمانہ پرکئے، جہاں ہرطرف کے لوگ موجود تھے، ایامِ حج کے گزرنے پرابوجعفر منصور نے ابھی روانگی کا قصد نہ کیا تھا کہ ابومسلم مکہ سے روانہ ہوگیا، مکہ سے دومنزل اس طرف آگیا تھا کہ دارالخلافہ انبار کا قاصد اس کوملا جوسفاح کے مرنے کی خبر اور ابوجعفر منصور کے خلیفہ ہونے کی خوش خبری لے کرمنصور کے پاس جارہا تھا، ابومسلم نے اس قاصد کودوروز تک ٹھہرائے رکھا اور پھرمنصور کے پاس روانہ کردیا، منصور کوابومسلم کے پہلے ہی روانہ ہونے کا ملال تھا، اب اس بات کا ملال اور ہوا کہ ابومسلم نے اس خبر کے سننے پرمنصور کوخلافت کی مبارکباد نہیں بھیجی، بیعت کے لیے بھی نہیں ٹھہرا؛ حالانکہ سب سے پہلے اسی کوبیعت کرنی چاہیے تھی اور کم از کم منصور کے آنے تک اسی مقام پرقیام کرنا نہایت ضروری تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ سفرکرتے ابوجعفر منصور یہ خبر سنتے ہی فوراً مکہ سے روانہ ہوگیا؛ لیکن ابومسلم اس سے آگے سفر کرتا ہوا انبار پہنچا، اس کے بعد منصور داخلِ دارالخلافہ ہوا۔
ابومسلم اور ابوجعفر کوروانہ کرنے کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح چار برس آٹھ مہینے خلافت کرکے بتاریخ ۳۱/ذی الحجہ سنہ۱۳۶ھ فوت ہوا اس کے چچا عیسیٰ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، انبار میں دفن ہوا، اس نے مرنے سے پہلے اپنے بھائی ابوجعفر منصور اور اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کی ولی عہدی کا عہدنامہ لکھ کرایک کپڑے میں لپیٹ کراور اپنے اہلِ بیت کی مہریں لگاکر عیسیٰ کے سپردکردیا تھا؛ چونکہ منصور موجود نہ تھا، اس لیے عیسیٰ بن موسیٰ نے منصور کی خلافت کے لیے لوگوں سے نیابتاً بیعت لی اور اس واقعہ کی اطلاع کے لیے قاصد مکہ کی طرف روانہ کیا۔
عبداللہ سفاح نے مال ودولت سے اپنی خلافت کے قیام واستحکام میں اسی طرح کام لیا جس طرح بانیٔ خلافت بنواُمیہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کام لیا تھا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سخاوت کے ذریعہ اپنے مخالفوں یعنی علویوں کا منھ بند کردیا تھا اور ان کواپنا ہمدرد بنالینے میں کامیابی حاصل کی تھی؛ اسی طرح بانیٔ خلافت عباسیہ سفاح کے مقابلہ پربھی علوی ہی دعوے دارِ خلافت تھے؛ انھوں نے عباسیوں کے ساتھ مل کربنواُمیہ کوبرباد کیا تھا اور اب عباسیہ خاندان میں خلافت کے چلے جانے سے وہ بالکل اسی طرح ناخوش تھے، جیسے کہ خاندانِ بنواُمیہ میں خلافت کے چلے جانے سے ناراض تھے، عبداللہ سفاح نے بھی علویوں کوحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرح بے دریغ مال ودولت دے کرخاموش کردیا، جب سفاح کوفہ میں خلیفہ بنایا گیا توعبداللہ بن حسن مثنیٰ بن علی اور دوسرے علوی لوگ کوفہ میں آئے اور کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ خلافت جوہمارا حق تھا اس پرتم نے قبضہ کیا، یہ عبداللہ بن حسن مثنیٰ ہیں جن کے لڑکے محمد کوبماہ ذی الحجہ سنہ۱۳۱ھ میں مجلس کے اندر عباسیوں اور علویوں نے خلافت کے لیے منتخب کیا تھا اور تمام حاضرینِ مجلس کے ساتھ ابوجعفر منصور نے بھی محمد کے ہاتھ پربیعت کی تھی، سفاح نے عبداللہ بن حسن مثنی کی خدمت میں دس لاکھ درہم پیش کردیئے؛ حالانکہ یہ رقم سفاح کے پاس اس وقت موجود نہ تھی، ابنِ مقرن سے قرض لے کردی؛ اسی طرح ہرایک علوی کوانعام واکرام سے مالا ال کرکے رُخصت کیا، عبداللہ بن حسن ابھی سفاح کے پاس سے رخصت نہ ہوئے تھے کہ مروان بن محمد کے قتل ہونے کی خبر اور بہت سے قیمتی جواہرات وزیورات جومالِ غنیمت میں آئے تھے لے کرقاصد پہنچا، سفاح نے وہ تمام قیمتی جواہرات وزیورات بھی عبداللہ بن حسن مثنیٰ کودے دیئے اور اسی ہزار دینار دے کروہ زیورات ایک تاجر نے عبداللہ بن حسن سے خریدلیے، غرض کہ عبداللہ سفاح سے اس کام میں ذرابھی کوتاہی ہوتی تویقیناً علوی فوراً علانیہ مخالفت پرآمادہ ہوکر اُٹھ کھڑے ہوتے اور اس وقت ممکن تھا کہ بہت سے نقباء بھی جوکافی اثررکھتے تھے ان کا ساتھ دیتے اور عباسیوں کے لیے اپنی خلافت قائم رکھنا بے حددشوار ہوجاتا؛ لہٰذا عبداللہ سفاح کے کاموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہی سمجھنا چاہیے کہ اس نے تمام علویوں کومال ودولت دے کرخاموش رکھا اور اکسی کومقابلہ پرکھڑا نہ ہونے دیا، عبداللہ سفاح کی وفات کے بعد ہی علوی خروج پرآمادہ ہوگئے؛ مگراب خلافتِ عباسیہ مستحکم ہوچکی تھی'