Jump to content

User:Haziq banarsi

From Wikipedia, the free encyclopedia


مولانا فیروز علی بنارسی مقدمہ

دشمنان اسلام میں سے صرف ایک قبیلہ جو ایک لمحہ کے لئے بھی رسول خداﷺاور مسلمانوں کی دشمنی و عداوت سے دست بردار نہ ہوا وہ قبیلۂ بنی امیہ تھا۔ اس قبیلہ کا سردار ابو سفیان تھا۔ ابوسفیان وہ تھا جو فتح مکہ سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ وہی تھا جس نے جنگ بدر، احد اور احزاب کو اسلام کی نابودی اور خاتمہ کے لئے برپا کیا اور فتح مکہ تک ایک لمحہ بھی اس ناپاک منصوبہ سے پیچھے نہیں ہٹا اور اس کا بیٹا معاویہ جو فتنہ و فساد اور بے دینی میں اپنے باپ سے کم نہ تھا اس نے بھی شروع ہی سے رسول خداﷺ اور اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت پر بنا رکھی۔ اس نے امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کے شیعوں اور پیروکاروں پر بدترین مظالم روا رکھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ وہ شخص جس نے پیکر اسلام و مسلمین پر سب سے زیادہ زخم وارد کئے وہ معاویہ تھا اس لئے کہ اس نے مسلمانوں پر پچاس سالہ تسلط کے دوران نہ صرف یہ کہ بہت سی حرمتوں کو پامال کیا بلکہ سیرت و سنت نبوی میں تحریف و تبدیلی کے لئے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے اور سعی لاحاصل کی۔

امیر المومنین علیہ السلام جو دوسروں سے زیادہ اس قبیلہ بالخصوص معاویہ کے دیرینہ سابقہ سے واقف تھے ، ایک خط میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا :

جان لو کہ تم اہل عراق ان لوگوں سے رو برو ہو جو طلقاء (آزاد شدگان)اور فرزندان طلقاء ہیں اور ان لوگوں سے لڑ رہے ہو جو زبردستی اسلام لائے ہیں۔ وہ خدا، سنت نبی ﷺاور قرآن مجید کے دشمن اور بدعتوں کے پیروکار ہیں۔

(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۲،ص۳۲)

امام علی علیہ السلام معاویہ کے خلاف جنگ میں جاتے وقت اپنے لشکر والوں کو تشویق و ترغیب کرتے ہوئے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:

خدا، سنت اور قرآن مجید کے دشمنوں کی طرف آگے بڑھو اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں اور احزاب کے باقی ماندہ لوگوں کی طرف آگے بڑھو۔

(الغدیر،ج۱،ص ۲۵۷)

سیرت نبوی کی تحریف کیلئے معاویہ کے ہتھکنڈے

راویان حدیث کے ساتھ معاویہ ابن ابی سفیان کا نہایت نا روا اور برا برتاؤ رسول خداﷺ اور آپ کے پیروکاروں سے اس کی گہری دشمنی اور کینہ و حسد کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کبھی کسی حدیث نبوی کو سن کر نا روا حرکتیں کرکے راویان حدیث کا مسخرہ کرنا اور ان کا مذاق اڑاتا تھا۔ مندرجہ ذیل نمونے اس بات کے بہترین گواہ ہیں۔

سعد ابن ابی وقاص کا مسخرہ

طبری نے ابن ابی بخیع سے نقل کیا ہے کہ جب معاویہ مناسک حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آیا ہوا تھا تو وہ طواف کے بعد دار الندوہ میں گیا اور سعد ابن ابی وقاص بھی اس کے ساتھ تھا۔ معاویہ نے اسے تخت پر اپنے ساتھ بٹھایا اور حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ سعد نے کہا:مجھے اپنے بغل میں بٹھایا ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہہ رہا ہے؟! خدا کی قسم! اگر علی علیہ السلام میں پائے جانے والے صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی مجھ میں ہوتی تو وہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہوتی جن پر سورج چمکتا ہے۔

(الغدیر،ج۱ ،ص ۲۵۷)

علامہ امینیؒ اس واقعہ کے اگلے حصہ کو عائشہ اور دیگر افراد کی زبانی اس طرح نقل کرتے ہیں:

سعد نے یہ کہا اور بلا فاصلہ وہاں سے اٹھا کر جانے لگامگر معاویہ نے ریح خارج کی اور کہا: بیٹھو تاکہ اپنا جواب لیتے جاؤ۔ ابھی تک تم میرے نزدیک اتنے پست و ذلیل نہیں ہوئے تھے ۔ اب اگر ایسا ہی ہے جیسا تم کہہ رہے ہو تو کیوں علی علیہ السلام کی بیعت نہ کی اگر میں ایسی کوئی بات نبیﷺ سے سنتا تو جب تک زندہ رہتا علی علیہ السلام کا خادم رہتا۔

(الغدیر،ج۱ ،ص ۲۵۸)

ابو قتادہ کا مذاق اڑانا

جس دن معاویہ مدینہ میں داخل ہوا ۔ ابو قتادہ اس کے سامنے آیا، معاویہ نے کہا:اے ابو قتادہ! تم انصار کے علاوہ سارے لوگ میرے دیدار اور ملاقات کے لئے آئے۔ کون سی چیز رکاوٹ بنی کہ تم مجھ سے ملاقات کے لئے نہیں آئے؟

ابو قتادہ نے کہا:میرے چوپائے میرے ساتھ نہ تھے۔

معاویہ نے کہا: پس تمہارے اونٹ کیا ہوئے؟

ابو قتادہ نے کہا: ان اونٹوں کو جس دن تجھ سے اور تیرے باپ سے جنگ کے لئے جنگ بدر میں گئے تھے وہیں نحر کر دیا۔ اس کے بعد ابو قتادہ نے کہا: رسول خداﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ ہم آپﷺ کے بعد سختیوں اور مشکلات سے دوچار ہوں گے۔

معاویہ نے کہا: ایسی حالت میں رسول خداﷺ نے تمہیں کیا حکم دیا تھا؟ ابو قتادہ نے کہا: آپﷺ نے ہمیں صبر و استقامت کا حکم دیا تھا۔ معاویہ نے کہا: پس صبر کرو یہاں تک کہ رسول خداﷺ سے جا ملو۔

(تاریخ الخلفاء،ص۴)

توہین اور باہر نکالنا

ایک دن ابو بکرہ معاویہ کی بزم میں حاضر ہوا، معاویہ نے کہا: اے ابو بکرہ! مجھ سے کوئی حدیث بیان کرو۔ ابو بکرہ نے کہا: میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

تیس سال تک خلافت رہے گی اس کے بعد بادشاہت ہو جائے گی۔ عبد الرحمن ابن ابی بکرہ کا بیان ہے کہ اس وقت میں بھی اپنے والد ابو بکرہ کے ساتھ تھا۔ معاویہ نے اس حدیث کو سن کر حکم دیا کہ ہم لوگوں کو گردن پکڑ کر باہر نکال دیا جائے۔(الغدیر،ج۱۰،ص۲۸۳)

حدیث نقل کرنے والوں کو دھمکی

معاویہ نے احادیث نبوی کے نقل پر پابندی کے لئے جن ہتھکنڈوں کو اپنایا ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اصحاب کو نقل حدیث کی صلہ میں قتل کی دھمکی دیتا تھا۔ نصر ابن مزاحم کا بیان ہے کہ معاویہ نے عبد اللہ ابن عمر کے پاس ایک آدمی بھیجا اور کہلوایاکہ:اگر میں نے سنا کہ تونے کوئی حدیث نقل کی ہے تو میں تیری گردن اڑا دوں گا۔

 (وقعۃ الصفین،ص۲۲۰)

سیرت و سنت نبوی کے ساتھ برتاؤ

معاویہ کا دیرینہ کینہ و حسد اسے اس بات پر مجبور کرتا تھا کہ وہ رسول خداﷺ کے زریں اقوال کو بھی ایک دوسری نظر سے دیکھے اسی لئے اس نے شروع ہی سے اس بات پر بنا رکھی تھی کہ احادیث و سنت نبوی میں جعل سازی اور تحریف کرے، تجاہل، تغافل اور انکار کے ذریعہ بلکہ سنت نبوی کے مقابلہ میں اپنی رائے اور نظریہ کو ظاہر کرکے نیز دسیوں منصوبوں کے تحت سیرت و سنت نبوی کونیست و نابود کرنے کے لئے مسلسل اور پے در پے کوششیں کرتا رہے، منجملہ:

راویوں کی توبیخ و سرزنش کے بعد روایات کو بھلا دینا

معاویہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے سنت نبوی کے بر خلاف شام کے بازار میں ربا خوری اور سود خوری کو رائج کیا تھا اور اگر کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرتا تو اس کے ساتھ کافی سخت اور ناروابرتاؤ کیا جاتا تھا اور بسا اوقات اس سے کہا جاتا تھا کہ وہ حدیث نبوی کو بیان کرنے سے پرہیز کرے۔ عبادہ بن صامت نے شام میں دیکھا کہ شامی اپنی خرید و فروخت میں چاند ی کے ایک برتن کو اسی طرح کے چاندی کے دو برتن سے بیچتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے پاس آئے اور کہا:

اے لوگو! جو مجھ کو پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا تو جان لے کہ میں عبادہ ابن صامت ہوں۔ جان لو کہ ماہ رمضان کی آخری شب جمعہ میں میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:

سونے کو سونے سے ایک دوسرے کے وزن کے مطابق بغیر کسی کمی و زیادتی کے خریدنا اور بیچنا چاہئے۔ پس جو بھی زیادہ ہوگا وہ ربا ہوگا۔

لوگ اس حدیث کو سن کر عبادہ کے پاس سے متفرق ہو گئے اور معاویہ کو خبر دی کہ عبادہ نے ایسا ایسا کہا ہے۔ معاویہ نے انھیں بلایا اور کہا:

اگر تم رسول خداﷺ کے صحابی اور ساتھی ہو تو ہم بھی ان کے صحابی اور مددگار تھے اور ہم نے بھی ان سے یہ سنا ہے۔

عبادہ نے کہا: میں نے رسول خدا ﷺکا دیدار کیا آپﷺ کے ساتھ رہا اور آپﷺ ہی سے یہ حدیث سنی۔ معاویہ نے کہا: یہ کون سی حدیث تھی جسے تونے نقل کیا؟ عبادہ نے ربا کے بارے میں رسول خداﷺ کی اسی حدیث کو نقل کر دیا۔ معاویہ نے کہا: اس حدیث سے چشم پوشی کر لے اور کہیں دوسری جگہ نقل نہ کر۔ عبادہ نے کہا: بے شک میں اس حدیث کو نقل کروں گا اگر چہ وہ معاویہ کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

(الغدیر،ج۱،ص۱۸۵، اسد الغابہ،ج۳،ص۱۰۷)

سنت نبوی کے مقابلہ میں اظہار خیال

معاویہ کی وقاحت و بے شرمی اس درجہ تھی کہ اگر کوئی کام سنت نبوی کے خلاف ہوتا اور وہ اس پر عمل کرتا ہوتاتھا تو نہ صرف یہ کہ وہ کسی بھی قیمت پر تیار نہیں ہوتا تھاکہ اپنے غلط کام سے دست بردار ہو بلکہ سنت نبوی کے مقابلہ میں اپنا نظریہ بیان کرتا اور کہتا تھا کہ میری نظر میں اس کام کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نسائی نے اپنی کتاب سنن میں قتیبہ سے، ا س نے مالک سے، اس نے زید ابن اسلم سے، اس نے عطا ابن یسار سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے ایک سونے کے برتن کو یا دینار کو اس سے زیادہ وزنی مقدار سونے سے بیچا تو ابو داؤد نے کہا:

میں نے رسول خداﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ ایسے معاملہ اور خرید و فروخت سے منع فرماتے تھے مگر یہ کہ بالکل اسی طرح اور اسی مقدار میں ہو ۔(بغیر کسی کمی و زیادتی کے)

(سنن نسائی،ج۷،ص۲۷۹)

واضح نہیں ہے کہ نسائی نے صرف اسی حصہ کو کیوں نقل کرنے پر اکتفا کر لی ہے یا یہ کہ بعد میں اس گفتگو کے بقیہ حصہ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ علامہ امینیؒ نے نسائی واقعہ کو یہیں تک نقل کیا ہے۔ اس کے بعد مزید اضافہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں جو سنن نسائی کے خطی نسخے میں نہیں ہے، جب ابو داؤد نے رسول خداﷺ کی اس حدیث کو نقل کیا تو معاویہ نے کہا:

میری نظر میں اس معاملہ اور خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو داؤد نے کہا: معاویہ کے بارے میں کون میری بات مانے گا؟ (عجیب و غریب بات تو یہ ہے کہ)میں اسے رسول خداﷺ کی حدیث سنا رہا ہوں اور وہ مجھ سے اپنا نظریہ اور خیال بیان کر رہا ہے۔ اس کے بعد ابو داؤد نے کہا:

اب میں کبھی بھی اس حکومت میں نہیں رہ سکتا جہاں پر تیری حکمرانی ہو۔

(الغدیر،ج۱۰،ص۱۸۴)

مقصود نبی اکرم ﷺمیں تحریف

بہت سے اصحاب رسول خداﷺ نے آپ کے دہن مبارک سے جناب عمار ابن یاسرؓ کے بارے میں یہ سن رکھا تھا کہ آپﷺ نے فرمایا:

اَمَّا اِنَّکَ سَتَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔

(اے عمار! تمھیں باغی گروہ قتل کرے گا)جنگ صفین میں جب جناب عمار ؓ معاویہ اور اس کے ہواداروں کے ہاتھوں مارے گئے تو معاویہ کے کچھ پیرو کار منجملہ عمرو ابن عاص بہت زیادہ وحشت زدہ اور خوفزدہ معاویہ کے پاس آئے تو اس نے پوچھا:

کیوں آئے ہو؟ عمرو نے شہادت عمار کی خبر اس کو دی تو اس نے کہا:

تو کیا ہو گیا ہے؟ عمرو نے کہا: میں نے رسول خداﷺ سے سنا تھا کہ آپ فرماتے تھے:

تَقتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔

عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔

معاویہ نے کہا:کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے؟ بلکہ یہ علی علیہ السلام اور اصحاب علی علیہ السلام ہیں جنہوںنے ان کو قتل کیا ہے اس لئے کہ وہی لوگ عمار کو یہاں لے کر آئے تھے اور ہمارے نیزوں اور شمشیروں کے سامنے کھڑا کیا تھا۔

(سبعۃ من السلف،ص ۲۸۴)

عجیب و غریب بات تو یہ ہے کہ یہ مکار اور حیلہ گر جنگ میں کئی بار یقینی و قطعی شکست سے نجات پایا تھا۔ جناب عمار ابن یاسر کی شہادت کے وقت نزدیک تھا کہ وہ اپنے بہت سے ساتھیوں اور ہم فکروں اور سپاہیوں کو ہاتھ سے کھو بیٹھے تو اس نے رسول خداﷺ کے فرمان میں تحریف کرکے اپنے ہمکاروں کو دھوکا دیا۔

شبلنجی نور الابصار میں تحریر فرماتے ہیں:

جب معاویہ کی یہ بات علی علیہ السلام کے کانوں میں پہنچی تو آپ نے فرمایا:

اگر میں عمار کا قتل ہوں تو اس بات کی روشنی میں رسول خداﷺ نے جناب حمزہ کو قتل کیا ہے جب آپ نے ان کو کفار کی طرف بھیجا اور وہ اس راہ میں قتل ہوئے۔

(نور الابصار،ص۸۹)

آیۃ اللہ فیروز آبادی قدس سرہ اس واقعہ کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:

اگر ایسا ہے کہ علی علیہ السلام قاتل عمار ہوں کہ آپ ہی نے ان کو معاویہ سے جنگ کے لئے بھیجا تھا تو پھر خداوند عالم نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا ہے اس لئے کہ اسی نے انہیں کفار کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ان کے پاس بھیجا تھا اور وہ اس راہ میں قتل ہوئے۔

(سبعۃ من السلف،ص ۲۸۹)

لالچ دلانے کے بیت المال کو خرچ کرنا

سیرت و سنت نبوی کے ساتھ معاویہ کی خیانتوں میں سے ایک خیانت یہ تھی کہ وہ بیت المال کے بہت سے اموال کو اٹھا کر گمراہ اور کینہ پرور لوگوں کی جیب میں ڈال دیتا تھا تاکہ وہ لوگ رسول خداﷺ کی زبانی سنے گئے آیات کے شانِ نزول سے کھلواڑ کریں اور اس میں تحریف و تبدیلی کریں اور اسے بدل ڈالیں۔

محدث قمی ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ:

معاویہ نے سمرہ ابن جندب کو ایک لاکھ درہم دیا تاکہ وہ رسول خداﷺ سے یہ روایت نقل کرے کہ آیۂ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اﷲَ عَلَی مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (سورۂ بقرہ، ۲۰۴)(انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میںبھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں ) علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور آیت : وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاۃِ اﷲِ وَاﷲُ رَئُوفٌ بِالْعِبَادِ (سورۂ بقرہ، ۲۰۷) ابن ملجم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن وہ تیار نہیں ہوا ہے کہ ایسی روایت کو جھوٹ میں رسول خداﷺ کی زبانی نقل کرے۔ معاویہ نے اسے اس کام پر تیار کرنے کے لئے رقم کو بڑھا کر دو لاکھ درہم کر دیا لیکن اس نے اس کے با وجود قبول نہ کیا ۔ معاویہ نے رقم کو تین لاکھ کر دیا پھر بھی وہ تیار نہ ہوا یہاں تک کہ چار لاکھ درہم پر راضی ہو گیا اور اس نے اس ظلم و زیادتی کو انجام دیا۔

(سفینۃ البحار،ج۱،ص ۶۵۴)

سنت رسول خداﷺ کا انکار

ہر وہ چیز جسے معاویہ ناپسند کرتا یا اس کے نظریہ کے خلاف ہوتی اسے فوراً رد کر دیتا تھا اور اگر وہ چیز رسول خداﷺ سے وارد ہو ئی ہواور آپ کی سیرت و سنت ہو تو وہ فوراً انکار کر تا تھا کہ ایسی تو کوئی چیز رسول خداﷺ سے نہیں صادر ہوئی ہے۔ سونے کو سونے، گیہوں کو گیہوں اور جو کو جو سے بیچنے کے بارے میں عبادہ ابن صامت اور معاویہ کے درمیان گفتگو میں آیا ہے کہ عبادہ نے رسول خداﷺ کی ایک حدیث کو نقل کیا کہ آپ نے ایسی خرید و فروخت کا (سوائے برابر کی خرید و فروخت)سے منع فرمایا ہے۔ معاویہ کو اس حدیث کو جھٹلانے میں غصہ میں آ گیا اور کہا:

کیوں کچھ لوگ رسول خداﷺ کی حدیثوں کو نقل کرتے ہیں جبکہ ہم بھی آپ کے اصحاب میں سے تھے لیکن ہم نے تو ان سے ان حدیثوں کو نہیں سنا ہے؟

عبادہ نے جیسے ہی معاویہ کی اس بات کو سنا اپنی جگہ سے اٹھے اور دوبارہ اس حدیث کو بیان کیا اور کہا:

ہم نے رسول خداﷺ سے جو کچھ سنا ہے اسے نقل کریں گے اگر چہ وہ معاویہ کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

(سنن نسائی،ج۷،ص۲۷۵)

سنت کو مارنا اور بدعت کو زندہ کرنا

معاویہ ابن ابی سفیان سنت نبوی کو نیست و نابود کرنے اور بدعتوں کو زندہ کرنے پر کافی توجہ دیتا تھا۔ تاریخ نے اس سلسلہ میں اس کے کچھ سیاہ کارناموں کو لکھا ہے۔ علامہ امینیؒ نے کتاب الغدیر میں ان میں سے ۲۷ موارد کی طرف اشارہ کیا ہے منجملہ:

۱۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے مسلمانوں کے درمیان فسق و فجور اور فحشاء کو رائج کیا۔

۲۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے ربا کو حلال قرار دیا اور خود بھی سود کھایا۔

۳۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے سفر میں پوری نماز پڑھی۔

۴۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے نماز عیدین (فطر و قربان)میں اذان کی بدعت کی بنیاد رکھی۔

۵۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے ایک وقت میں دو بہنوں کو زوجیت میں رکھنے کو جائز قرار دیا۔

۶۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے دیت کے سلسلہ میں رسول خداﷺ کی سنت کو بدلا اور جو چیز سنت نبوی میں نہیں تھی اس کا اضافہ کیا۔

۷۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد تکبیر کہنے کو ترک کیا۔

۸۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے نماز عیدین میں خطبہ کو نماز پر مقدم کیا۔

۹۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے ناجائز بچوں کے سلسلہ میں حکم شریعت کو توڑا۔

۱۰۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنی۔

۱۱۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے جس نے حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کا آغاز کیا اور اسے سنت کے عنوان سے باقی رکھا۔

۱۲۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے بیت المال کو کتاب خدا کی تحریف میں خرچ کیا۔

۱۳۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے بیعت کی قبولیت کی شرط حضرت علی علیہ السلام ابن ابی طالب پر سب و شتم کو قرار دیا۔

۱۴۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے رسول خداﷺ کے عظیم المرتبت صحابی جناب عمرو ابن حمق کے سر مقدس کو اپنے پاس منگوایا۔

۱۵۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے رسول خداﷺ کے عادل اصحاب کو قتل کیا۔

۱۶۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے اہل بیت علیہ السلام کی پیرو خواتین کو قتل کیا۔

۱۷۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے خلافت اسلامی کو ملوکیت و بادشاہت میں تبدیل کیا۔

۱۸۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے ریشمی لباس پہنا۔

۱۹۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے سونے اور چاندی کے برتن میں پانی پیا۔

۲۰۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے حرام غنا و موسیقی کو سنا اور اس پر مال و دولت کو خرچ کیا۔

۲۱۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے شہر رسول مدینہ پر حملہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا۔ (الغدیر،ج۱۱،ص۷۲)

Cite error: There are <ref> tags on this page without content in them (see the help page).