Jump to content

User:مولانا اکمل

From Wikipedia, the free encyclopedia
  • علماء ومصلحین امت اور ان کے فتنے*

از قلم : محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہورہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے:

  • 1- مصلحت اندیشی کا فتنہ*

یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لارہاہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔


[1]ھر دلعزیزی کا فتنہ جوبات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔

  • 3- اپنی رائے پر جمود واصرار*

اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالا ہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔

  • 4-سوء ظن کا فتنہ*

ہرشخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب وکبر ہے۔

  • 5- سوء فہم کا فتنہ*

کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتاہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو‘ کیا ”ان بعض الظن اثم“ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث“ ( بدگمانی سے بچاکرو‘ کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․

  • 6-بہتان طرازی کا فتنہ*

مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی‘ بلاتحقیق اس پر یقین کرلینا اور مزے لے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ”ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا“ الآیة ( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟

  • 7- جذبہٴ انتقام کا فتنہ*

کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتاہے لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتاہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگذر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم وکرم اور عفو درگذر سب ختم۔

  • 8-حب شہرت کا فتنہ*

کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی ورباکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

  • 9- خطابت یا تقریر کا فتنہ*

یہ فتنہ عام ہوتا جارہاہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔ ”لم تقولون ما لاتفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالاتفعلون“ ۔ ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتاہے گویا تمام جہاں کادرد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتاہے۔

  • 10- پروپیگنڈہ کا فتنہ*

جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔

  • 11- مجلس سازی کا فتنہ*

چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہوگیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتاہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتاہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ وکلمات سے قرار دادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق وانتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔

  • 12- عصبیت جاہلیت کا فتنہ*

اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت وتائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہربات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار ورسائل‘ تصویریں‘ کا رٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چونکہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لئے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کا نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایاجاتاہے۔

  • 13- حب مال کا فتنہ*

حدیث میں تو آیاہے کہ ”حب الدنیا رأس کل خطیئہ“ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات ”ربنا آتنا فی الدنیا حسنة“ کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لئے دلیل بناتے ہیں‘ حالانکہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول- اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حب دنیا یا حب مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعت محمدیہ اور دین اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہوجائیں‘ اقتصاد واعتدال کی ضر ورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گذر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہاہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لئے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہ کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں:

  • ”اللہم! رزقنی حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک‘ اللہم ما رزقتنی مما احب فا جعلہ قوة فیما یحب وما زویت عنی مما احب فاجعلہ فراغاً لی فیما تحب‘ اللہم اجعل حبک احب الاشیاء الیّ من نفسی واہلی ومن الماء البارد“*


[6/25, 16:50] MUFTI SAHBAN S: *ایک کھلا خط*

  • تبليغی ذمہ داروں کے نام*

_________________________


  • منجانب.... ھندوستانی نوجوان علماء کرام*

_________________________


قابلِ صد احترام ذمہ داران مروجہ تبليغی جماعت انڈیا!


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎


خدا کرے کہ مزاج عالی بعافیت ہوں۔

      عرض خدمت یہ ہیکہ آپ حضرات بخوبی جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی کہ 


*مروجہ تبليغی جماعت* ہمارے دیوبندی مزاج علماءکرام کا لگایا ہوا پودہ ہے جو اب بڑا ہوکر ایک تناور درخت کی شکل اختيار کرگیا ہے اور یقینااس کی شاخیں اب پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ۔ لیکن اس حقیقت سے کوٸی باشعور و انصاف پسند انسان ہرگز انکار نہیں کرسکتا کہ اس مروجہ تبليغی جماعت کے پھلنے پھولنے اور تناور درخت کی شکل اختيار کرنے میں بنیادی کردار علماءدیوبند کا رہا ہے اور ان ہی کی محنت وکاوش اور تاٸید و توثیق زیادہ کار فرما رہی ہے. اگر مروجہ جماعت کے سر پہ علماء دیوبند کا  سایہ نہ ہوتا اور وہ حضرات اس کی سرپرستی نہ فرماتے تو یقینا اس جماعت کا پھلنا پھولنا بظاہر ممکن نہ ہوتا بلکہ آغاز ہی میں اس کا دم گھٹ چکا ہوتا اور اب تک تو اس مروجہ جماعت کی قبر پہ خود رو ہریالی بھی جنگل بن چکی ہوتی*
       کیونکہ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی اس مروجہ تبليغی جماعت پر کہیں سے کوٸی انگلی اٹھی ہے تو اس کا دفاع صرف اور صرف انھیں علماء نےکیا ہے جو فکر دیوبند سے منسلک رہے ہیں اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہمارے اکابر علماء دیوبند کو اپنے مذہب و مسلک کی تاٸید و دفاع سے زیادہ اسی جماعت کو سنبھالنا پڑا ہے اور اسی جماعت کی حفاظت و دفاع میں ان کا اچھا خاصا وقت صرف ہوا ہے
         دسیوں کتابیں اس جماعت کی تاٸید میں لکھ کر ہمارے علماء کرام نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ آپ کی اپنی جماعت کا کوٸی اعلی ذمہ دار( یعنی خالص جماعتی) بھی ادا نہیں کرسکا ہے اسی لیے خود بانی جماعت بھی اپنی جماعت کی تاٸید کے لیے متعدد علماء کرام کی خدمات لیتے رہے ہیں کیونکہ انھیں بجا طور پر یہ احساس ویقین تھا کہ جب تک دیوبندی مکتب فکر کے اکابرعلماء کی تاٸید حاصل نہیں ہوگی کبھی بھی یہ جماعت کامياب نہیں ہوسکتی ۔ 
        اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے علماء دیوبند اس جماعت کی تاٸید و حمایت نہ کرتے اور حسب ضرورت اس کا دفاع نہ فرماتے تو یہ جماعت ابتک اپنا نام و نشان بھی کھوچکی ہوتی
      *لہذا فکر دیوبند سے منسلک ہم ھندوستانی نوجوان علماء کرام آپ تمام اہل جماعت سے مخلصانہ خواھش رکھتے ہیں کہ آپ لوگ اپنی مروجہ تبلیغی جماعت کو

بربادی سے بچالیں. اکابر کے خوابوں کو رسوائی و شرمندگی کی کگار سے دور ھٹالیں اور دعوت وتبلیغ کے حسین و خوبصورت تاج محل کو زاغ وزغن سے پاک کرنے کی کوشش فرمائیں . دین وشریعت کے نام پہ تحریف وتضلیل سے سچی توبہ کریں اوراکرام مسلم بالخصوص اکرام علماء وائمہ کا سبق پھر سے اپنی زندگی کا جزو بنائیں*


کیونکہ بیشتر علماء دیوبند کا ماننا ہے کہ اب آپ کی جماعت میں بھی *بیشمار بدعات و خرافات اور بیجا تاویلات گھر کر چکی ہیں. اب اس جماعت میں بھی بجائے اخلاص و اخلاق کے ظلم و ستم اور جبر و جور آگیا ہے علما و آٸمہ کرام کی بیحرمتی و حق تلفی. اور توہین و تذلیل انتہا کو پہونچ چکی ہے*

       جبکہ آپ کی جماعت کا بنیادی درس یہی تھا کہ چھوٹوں پر شفقت کرو بڑوں کا ادب کرو اور علماء دین کی قدر کرو ۔
*مگر اب ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ اس جماعت میں یہ تعلیم صرف باتيں بن کر رہ گٸی ہے. اب ان جیسی تمام باتوں پر عمل در آمد ہرگز نہیں ہو رہاہے*
     *اب اہل جماعت پوری طرح مساجد میں غنڈہ گردی کررہے ہیں. ائمہ و مٶذنین کو پریشان کررہے ہیں انکی تذلیل و توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں اسی لئے آٸمہ کرام کی عزت نفس اب کہیں بھی محفوظ نہیں........ اور تعجب اس بات پر ہیکہ اس کھیل اور تماشہ کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو تبليغی جماعت کا فرد بتلاتے ہیں اور صرف اپنی جماعت کے کام کو دین کا کام کہتے ہیں*
      وجہ اس کی یہ ہیکہ علماء و آٸمہ کرام کو اپنے مروجہ کام کی تمام ترتيب میں زور و زبردستی سے شامل کرنے کی کوشش کرتے. مشورہ. گشت اوراپنے مروجہ کاموں میں حصہ لینے کو ائمہ و مؤذنین کے لئے لازم سمجھتے ہیں 
*جبکہ شریعت میں جس کام کا جو درجہ متعين ہے اس کو وہیں تک محدود رکھنے کا حکم ہے اس کو اسکے درجہ سے بڑھانے یا گھٹانے پر اس کام کا حکم بدل جاتا ہے. مروجہ جماعت کا  درجہ بھی زیادہ سے زیادہ مباح کا ہے مگر اس میں علماء و ائمہ کو

شامل کرنے کی اس طرح زور زبردستی کی جاتی ہےگویا مروجہ جماعت کا کام بھی فرض عین اور منزل من اللہ ہے........ ظاہر ہے کہ ایسی سوچ کے ساتھ مروجہ جماعت کا کام نہ صرف یہ کہ مباح نہیں رہے گا بلکہ ناجائز و بدعت کہلائےگا اور پھر اس کام کو ترک کرنا یعنی چھوڑنا واجب ہوجائے گا*

      بعض مقامات پر علماء و ائمہ کو اس لیے ستایا جارہا ہے کہ یہ علماء کرام اپنی زبان سے صدائے حق بلند کررہے ہیں اور مروجہ تبليغی جماعت میں راٸج غلطيوں کی نشاندہی فرماکر اصلاح کی کوششیں کررہے ہیں اور مروجہ جماعت میں جو بدعات و خرافات داخل ہوگئی ہیں انہیں ختم کرنے اور جماعتی کام کو شریعت کی حدود میں لانے کی کوشش و سعی کررہے ہیں
*مگرافسوس کہ ان علماء کرام کے اس نیک عمل کاشکریہ ادا کرنے اور انکا احسان مند ہونے کے بجائے ان کو ستایا جارہا ہے ان پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے انکو مساجد سے نکلوانے کی سازشیں کی جارہی ہیں حتی کہ بعض مقامات پر علماء وحفاظ اور آٸمہ کرام پر جان لیوا حملے کیے جارہے ہیں اس لیے ہم آپ لوگوں سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سب غیر دینی حرکتیں جماعت کی بنیاد میں شامل ہیں* ؟ 
  • کیا بانی جماعت حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کا مقصد یہی تھا کہ اس جماعت کے ذریعہ علماء وائمہ کرام کو ستایا جاۓ؟کیا اس مروجہ جماعت کے تمام قدیم و جدید ذمہ دار حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جاہل لوگ علماء کرام پر مسلط ہوکر شریعت کا کباڑہ کردیں*؟
      *ہمارا تو یقین ہے کہ آپ کی بنیاد ایسی ہرگز نہیں ہے اب اگر واقعی ہم صحیح کہہ رہے ہیں اور آپ ذمہ داران جماعت کا بھی یہی احساس ہے تو اپنی جماعت کے تمام افراد کو سمجھاٸیں انکو زور زبردستی سے تاکید فرمائیں ورنہ یہ اعلان کردیں کہ ہماری جماعت کا مقصد مسلمانوں کو تکلیف دینا ہے. اسی طرح جو دین کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اسے اتار کر پھینک دیں اور سر عام ننگے پن پر اترجاٸیں تاکہ امت کو دینداری کا جھانسہ نہ لگے اور اس جماعت کی کھلی گمراہی و فرقہ پرستی میں کسی کو شک باقی نہ رہے* ۔۔ 

کیونکہ اللہ تعالی کا قانون ہیکہ کفر و شرک کے ساتھ تو حکومت کی جاسکتی ہے. پھلا اور پھولا جاسکتا ہے مگر ظلم و ستم کے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں ۔ بلکہ ایسی جماعت. ایسی حکومت اور ایسی قوت و طاقت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے

         آپ کی اس جماعت میں حالیہ سالوں سے گروہ بندی اور تفرقہ بازی اسی ظلم و ستم کا نتیجہ ہے. اللہ کی قدرت دھیرے دھیرے تختہ الٹ رہی ہے اسی لیے کام ایک. مشن ایک. آواز اور محنت ایک اور جماعت ایک ہونے کے باوجود آپ لوگ خود آپس میں دست و گریباں ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ایک دوسرے کو ذلیل کرکے مساجد سے نکلوا رہے ہیں
      اس لیے ہم بہت ہی مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ *اس جماعت میں راٸج تمام ہی بدعات خرافات اور بیجا تاویلات سے بیزاری ظاہر کرتے ہوۓ ان سے توبہ و احتياط کا اعلان کریں اس جماعت کی جاہل عوام کو راہ راست پر لاٸیں اور جو ہٹ دھرمی کرے اس کو جماعت سے بیدخل کردیں تب ہی جاکر کچھ سدھار کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ اس بدی کے سمندر کو گمراہی کی مزید گہرائی سے کوئی نہیں روک سکتا*
اسی طرح یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر ذمہ داران جماعت اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے. اپنی جماعت کے جاہل افراد کو نہیں سنبهالتے اور پابند نہیں کرتے تو اس 
  • جماعت کا نام و نشاں تک نہ رہے گا داستانوں میں*

پھر اس کے بعد کف افسوس ملنے کےسواء اور کوٸی چارہ کار نہیں رہیگا ۔

    اس لیے ہم تمام نوجوان علماء و حفاظ اور  آٸمہ عظام پورے ہندوستان سے تمام ہی ذمہ داران جماعت کو اس بات سے آگاہ کررہے ہیں کہ *اب اس مروجہ جماعت میں بہت سی بدعات و خرافات جڑ پکڑ چکی ہیں*
جن میں  قرآن مجید کے معانی و مفاھیم میں تحریفات ۔ آیات و احادیث کی بے جا تاویلات. جھاد فی سبیل اللہ کے تمام فضائل و مناقب والی آیات وأحاديث میں معنوی تحریف کرکےاپنے چودهویں صدی کے مروجہ کام پر انھیں فٹ کرنا ۔ جاہلوں کا بیان و خطاب کرنا۔ بلکہ جاہلوں سے بیانات جان بوجھ کر کروانا اسی طرح درس قرآن و درس حدیث سے متنفر ہونا. ان دروس کی توہین کرنا ۔ علماء کرام سے جان بوجھ کر دوریاں بڑھانا ۔ بغیر علم کے مساٸل و فتاوے بیان کرنا ۔ مروجہ جماعت کے وہ کام جنھیں دین و شریعت کو سمجھنے کیلیے ایک ابتدائی انتظام کی حیثیت سے وجود دیا گیاتھا ان کو ہی دین کا کام یا دین کا سب سے زیادہ اہم شعبہ سمجھ لینا بلکہ اسی کی دعوت چلانا ۔ علماء کرام و مدارس عربیہ سے بغض و عناد رکھنا ۔ مروجہ جماعت کے تمام امور میں شامل ہونے کیلیے ہر فرد پر زور زبردستی کرنا ۔ علما و آٸمہ کرام پر ظلم و ستم کرنا ۔ مساجد کو سازشوں کا بازار بنانا ۔ مساجد میں من مرضی کے احکامات جاری کرکے اہل محلہ و امام و موذنین کو ستانا ۔ درس قرآن و درس حدیث پر پابندی عاٸد کرنا ۔شریعت کے دوسرے شعبوں کی توہین کرنا بلکہ نفی کرنا ۔........... یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو ناجائز و حرام ہیں اس کے باوجود ان تمام چیزوں میں جماعت کے تمام افراد بنفس نفیس شامل ہیں لہذا اس مروجہ جماعت کو ان ساری چیزوں سے پاک کیجیے ورنہ ان چیزوں کی موجودگی آپ کی جماعت کو بدعت ضالہ و گمراہی کا آلہ بناۓ رکھیگی*
۔ اگر آپ لوگوں نے اس جانب توجہ نہیں دی تو پھر انتظار کیجیے کہ جماعت ایک فرقہ ضالہ بن جاۓ گی اہل سنت سے کٹ جاۓ گی ۔ اور ہمارے ان بزرگ علماء کی خدمات بیکار ہوجائیں گی جن کی محنتوں سے اس جماعت کو چار چاند لگا ہے ۔۔
   ۔امید ہیکہ آپ حضرات ہماری باتوں کو توجہ خاطر میں لاتے ہوۓ عملا نفاذ کی کوشش کرینگے ۔ 
  • ورنہ بعد میں یہ نہ کہنا کہ ہماری جماعت ڈوب رہی تھی اور وقت کے علماء کرام نے آگاہ نہیں کیا*
۔ اس خط کو آپ حضرات آگاہی سمجھیں یا کچھ اور ۔ 
  • مگر حقیقت حال آپ سے پوشيدہ نہیں ہے اس لیے کشتی کو کنارے لگانے کی فکر کریں*

ورنہ یہ شعر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آپ کی جماعت کے حق میں صد فیصد درست ثابت ہوگا ۔۔۔

  • بربادی گلستاں کے لیے ایک ہی الو کافی تھا* ۔
  • ہر مرکز میں ہزاروں الو بیٹھے ہیں انجام جماعت کیا ہوگا*۔۔


  • فقط والسلام*۔
  • جماعت کے خیرخواہ. نوجوان علماء و حفاظ اہل سنت والجماعت( دیوبند) ۔۔۔ الہند ۔۔۔*

[6/25, 20:27] Ghulam Hussain K: سوچئے ؟؟؟


بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!

"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا

ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا

اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،

شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو

اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.

اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔

دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں

اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.


ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں

اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.

ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں

اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں.

ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.


اس کے برعکس

اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو

وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.

کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.

مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.

اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.


صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.

یاد رکھئے!

بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.

خیرات دیں،

منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،

اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.

باقی مرضی آپ کی"

  • .......فرض کریں اگر........*
 ایک سچی کہانی ایک ایسے شخص کی جس نے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوکہ  نہ ہی جنت  و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے پھر تم کیا کروگے ؟

اس کا جو جواب ملا وہ بہت ہی حیران کن اور تعجب خیز ہے لیجئے پوری کہانی *فرض کریں اگر* آپ کے پیش خدمت ہے :

  کہتے ہیں سنہ 2007م کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے 
ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی کہاں تھے ؟

میں نے کہا: میں معذرت خواہ ہوں در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا

اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں

میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں ؟کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہے لندن میں نہیں ہے؟

اس نے کہا:ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے

میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے

اس نے کہا :جی فرمائیں

میں نے کہا : اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا ٹھیک ہے ؟

اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور یہ رہا میرا وعدہ

میں نے کہا :چلو بحث شروع کرتے ہیں ...فرمائیں

اس نے کہا :آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟

میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا .

اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کو ئی جزا وسزا ہے پھر آپ کیا کروگے ؟

میں نے کہا :تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا

فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز ہی کچھ نہ کروں گا اس لئے کہ در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے

اس نے کہا : اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نماز دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے

میں نے کہا:مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان نمازوں کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش سمجھوں گا

اس نے کہا:اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے ؟

میں نے کہا :میں اسے روحانی ورزش سمجھو ں گا چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت سے جڑے بہت سارے فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے اور کئی بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کابھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھاناپینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے

اس نے کہا:آپ نے کبھی شراب پی ہے ؟

میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا

اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں

میں نے کہا کبھی نہیں

اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ لئے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟

میں نے کہا: شراب کے اندر نفع سے زیادہ نقصان ہے اور میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور اپنے نفس کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار مال واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے

اسی طرح  غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے  بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے 

اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر .جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟

میں نے کہا: میں عہد کے مطابق چلوں گا اور پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا

میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کوآلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو

   وہ میرےچہرے کو کچھ دیر  تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا 

میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں

میں نے کہا :تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟

اس نے کہا :یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے

میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل الٹا... میں بہت دکھی ہوں

اس نے تعجب سے کہا: دکھی ؟کیو؟

میں نے کہا :اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے

اس نے کہا :فرمائیں

میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان

اس نےکہا :وہ کیا ؟

میں نے کہا :میں نے تمہارے سامنےواضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ... لیکن میرا وہ ایک آسان سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالی بھی موجود ہے جنت و جہنم بھی ہے سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر تم اسوقت کیا کروگے ؟

     وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا 

میں نے اس سے کہا:مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا توبراہ مہربانی مجھے خبر کردینا ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی... ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے

ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا

ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا *کہ اچانک اس نےمیرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر مجھے اپنی باہوں میں پکڑ کر رونے لگا* میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو

اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں

بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن ودماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم ہوتا رہا

آپ نے میرے دل ودماغ اور جسم میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا

مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں

میں نے کہا :ہوسکتا ہے جب تمہاری بصارت نے تمہاراساتھ چھوڑ دیا ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو

اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے... یقینا جب میری بصارت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا توان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا

میرے پیارے بھائی تہہ دل سے آپ کا شکریہ


اس واقعہ کو پڑھ کر یونہی مت گزرجائیں بلکہ اس کونشر کریں شاید یہ کسی شخص کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے


عربی سے ترجمہ(منقول)